سارے تیرا خیال رکھتے ہیں
شب جو وہ مہ کبھو رہے ہے یاں
مدتوں یاد سال رکھتے ہیں
ان لبوں کا جواب دہ ہے لعل
ہم تجھی سے سوال رکھتے ہیں
گل ترے روزگار خوبی میں
منھ طمانچوں سے لال رکھتے ہیں
دہن تنگ کے ترے مشتاق
آرزوئے محال رکھتے ہیں
خاک آدم ہی ہے تمام زمیں
پاؤں کو ہم سنبھال رکھتے ہیں
یہ جو سر کھینچے تو قیامت ہے
دل کو ہم پائمال رکھتے ہیں
اہل دل چشم سب تری جانب
آئینے کی مثال رکھتے ہیں
گفتگو ناقصوں سے ہے ورنہ
میرؔ جی بھی کمال رکھتے ہیں