یاد خط میں اس کے جی بھر آ کے گھبراتا رہا

یاد خط میں اس کے جی بھر آ کے گھبراتا رہا
رات کا بھی کیا ہی مینھ آیا تھا پر جاتا رہا
کیا قیامت ہوتی بے پردہ ہوئے کیا جانیے
مصلحت ہی ہو گی ہم سے وہ جو شرماتا رہا
قد موزوں یار کا خاطر سے جاتا ہی نہیں
میں اسی مصرع کو ساری عمر ڈولاتا رہا
کل مکل بیتاب دل سے آج کل کی کچھ نہیں
میں تو اس غم کش کو بے کل ہی سدا پاتا رہا
آگ کھا جاتی ہے خشک و تر جو اس کے منھ پڑے
میں تو جیسے شمع اپنے ہی تئیں کھاتا رہا
میری تیری چاہ منھ دیکھے کی ہے جوں آرسی
آنکھ پھیری جس گھڑی پھر کاہے کا ناتا رہا
ہو گئے ہم محتسب کی بے شعوری سے اسیر
شیخ میں کچھ ہوش تھا میخانے سے جاتا رہا
لوگ ہی اس کارواں کے حرف نشنو تھے تمام
راہ چلتے تو جرس ہر گام چلاتا رہا
میرؔ دیوانہ ہے اچھا بات کیا سمجھے مری
یوں تو مجھ سے جب ملا میں اس کو سمجھاتا رہا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *