یارب اس کا ستم سہا بھی جائے

یارب اس کا ستم سہا بھی جائے
پنجہ خورشید کا گہا بھی جائے
دیکھ رہیے خرام ناز اس کا
پر کسو پا سے گر رہا بھی جائے
درد دل طول سے کہے عاشق
روبرو اس کے جو کہا بھی جائے
حیرت گل سے آب جو ٹھٹھکا
بہے بہتیرا ہی بہا بھی جائے
کیا کوئی اس گلی میں آوے میرؔ
آوے تو لوہو میں نہا بھی جائے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *