یعنی جدائی کا ہم صدمہ بڑا اٹھایا
مدت میں وہ ہوا شب ہم بستر آ کے میرا
خوابیدہ طالعوں نے اک خواب سا دکھایا
الجھاؤ پڑ گیا سو سلجھی نہ اپنی اس کی
جھگڑے رہے بہت سے گذرے بہت قضایا
آئینہ رو ہمارا آیا نہ نزع میں بھی
وقت اخیر ان نے کیا خوب منھ چھپایا
اس بے مروتی کو کیا کہتے ہیں بتاؤ
ہم مارے بھی گئے پر وہ نعش پر نہ آیا
وہ روئے خوب اب کے ہرگز گیا نہ دل سے
جب گل کھلا چمن میں تب داغ ہم نے کھایا
خلطہ ہمارا اس کا حیرت ہی کی جگہ ہے
ڈھونڈا جہاں ہم اس کو واں آپ کو ہی پایا
طرز نگہ سے اس کی بے ہوش کیا ہوں میں ہی
ان مست انکھڑیوں نے بہتیروں کو سلایا
آنکھیں کھلیں تو دیکھا جو کچھ نہ دیکھنا تھا
خواب عدم سے ہم کو کاہے کے تیں جگایا
باقی نہیں رہا کچھ گھٹتے ہی گھٹتے ہم میں
بیماری دلی نے چنگا بہت بنایا
تو نے کہ پاؤں دل سے باہر نہیں رکھا ہے
عیار پن یہ کن نے تیرے تئیں سکھایا
کس دن ملائمت کی اس بت نے میرؔ ہم سے
سختی کھنچے نہ کیونکر پتھر سے دل لگایا