یہ دل نے کیا کیا کہ اسیر بلا کیا

یہ دل نے کیا کیا کہ اسیر بلا کیا
اس زلف پر شکن نے مجھے مبتلا کیا
گو بے کسی سے عشق کی آتش میں جل بجھا
میں جوں چراغ گور اکیلا جلا کیا
آیا نہ اس طرف سے جواب ایک حرف کا
ہر روز خط شوق ادھر سے چلا کیا
ڈرتا ہی میں رہا کہ پلک کوئی گڑ نہ جائے
آنکھوں سے اس کے رات جو تلوے ملا کیا
بدحال ٹھنڈی سانسیں بھرا کب تلک کرے
سرگرم مرگ میرؔ ہوا تو بھلا کیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *