اگرچہ جان جاتی ہے چلی لیکن تغافل کر
سفر ہستی کا مت کر سرسری جوں باد اے رہرو
یہ سب خاک آدمی تھے ہر قدم پر ٹک تامل کر
سن اے بے درد گلچیں غارت گلشن مبارک ہے
پہ ٹک گوش مروت جانب فریاد بلبل کر
نہ وعدہ تیرے آنے کا نہ کچھ امید طالع سے
دل بیتاب کو کس منھ سے کہیے ٹک تحمل کر
یہ کیا جانوں کہ کیوں رونے لگا رونے سے رہ کر میں
مگر یہ جانتا ہوں مینھ گھر آتا ہے پھر کھل کر
مرے پاس اس کی خاک پا کو بیماری میں رکھا تھا
نہ آیا سر مرا بالیں پہ اودھر جو گیا ڈھل کر
تجلی جلوہ ہیں کچھ بام و در غم خانے کے میرے
وہ رشک ماہ آیا ہم نشیں بس اب دیا گل کر
تری خاموشی سے قمری ہوا شور جنوں رسوا
ہلا ٹک طوق گردن کو بھی ظالم باغ میں غل کر
گداز عاشقی کا میرؔ کے شب ذکر آیا تھا
جو دیکھا شمع مجلس کو تو پانی ہو گئی گھل کر