کوئی خاک سے ہو یکساں وہی ان کو ناز کرنا
کوئی عاشقوں بتاں کی کرے نقل کیا معیشت
انھیں ناز کرتے رہنا انھیں جی نیاز کرنا
رہیں بند میری آنکھیں شب و روز ضعف ہی میں
نہ ہوا مجھے میسر کبھو چشم باز کرنا
یہ بھی طرفہ ماجرا ہے کہ اسی کو چاہتا ہوں
مجھے چاہیے ہے جس سے بہت احتراز کرنا
نہیں کچھ رہا تو لڑکا تجھے پر ضرور ہے اب
ہوس اور عاشقی میں ٹک اک امتیاز کرنا
کوئی عاشقوں کی پھپٹ کنھوں نے اٹھائی بھی ہے
انھیں بات ہو جو تھوڑی اسے بھی دراز کرنا
یہی میرؔ کھینچے قشقہ در دیر پر تھے ساجد
نہیں اعتماد قابل انھوں کا نماز کرنا