جی چاہتا ہے جا کے کسو اور مر رہیں
اے کاش ہم کو سکر کی حالت رہے مدام
تا حال کی خرابی سے ہم بے خبر رہیں
رہتے ہیں یوں حواس پریشاں کہ جوں کہیں
دو تین آ کے لوٹے مسافر اتر رہیں
وعدہ تو تب ہو صبح کا جب ہم بھی جاں بلب
جیسے چراغ آخر شب تا سحر رہیں
آوارگی کی سب ہیں یہ خانہ خرابیاں
لوگ آویں دیکھنے کو بہت ہم جو گھر رہیں
ہم نے بھی نذر کی ہے کہ پھریے چمن کے گرد
یارب قفس کے چھوٹنے تک بال و پر رہیں
ان دلبروں کی آنکھ نہیں جائے اعتماد
جب تک رہیں یہ چاہیے پیش نظر رہیں
فردا کی فکر آج نہیں مقتضائے عقل
کل کی بھی دیکھ لیویں گے کل ہم اگر رہیں
تیغ و تبر رکھا نہ کرو پاس میرؔ کے
ایسا نہ ہو کہ آپ کو ضائع وے کر رہیں