یوں کب ہوا ہے پیارے پاس اپنے تم بلا لو

یوں کب ہوا ہے پیارے پاس اپنے تم بلا لو
دو باتیں گر لکھوں میں دل کو ٹک اک لگا لو
اب جو نصیب میں ہے سو دیکھ لوں گا میں بھی
تم دست لطف اپنا سر سے مرے اٹھا لو
جنبش بھی اس کے آگے ہونٹوں کو ہو تو کہیو
یوں اپنے طور پر تم باتیں بہت بنا لو
دو نعروں ہی میں شب کے ہو گا مکان ہو کا
سن رکھو کان رکھ کر یہ بات بستی والو
نام خدا ستم میں تم نامور تو ہو ہی
پر ایک دو کو یوں ہی للہ مار ڈالو
زلف اور خال و خط کا سودا نہیں ہے اچھا
یارو بنے تو سر سے جلد اس بلا کو ٹالو
یاران رفتہ ایسے کیا دور تر گئے ہیں
ٹک کر کے تیز گامی اس قافلے کو جا لو
بازاری سارے وے ہی کہتے ہیں راز بیٹھے
جن کو ہمیں کہا ہے تم منھ سے مت نکالو
یوں رفتہ اور بے خود کب تک رہا کرو گے
تم اب بھی میرؔ صاحب اپنے تئیں سنبھالو
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *