کہ ہر نقش قدم اک چشم تر ہے
ہمارا حال اب نوع دگر ہے
ارے ظالم تجھے کچھ بھی خبر ہے
مجھے اشکوں سے رسوائی کا ڈر ہے
مثل ہے گھر کے بھیدی سے خطر ہے
نہ کیوں جامے سے ہوجاوں میں باہر
کہ آج اس بت کے آنے کی خبر ہے
حباب آسا ہے اپنا دم لبوں پر
کوئی دم میں ادھر ہے یا ادھر ہے
وہاں قشقہ ہے صندل کا جبیں پر
یہاں حسرت کے مارے درد سر ہے
جگر کو کر رہی ہے تیغ زخمی
نہیں معلوم یہ کس کی نظر ہے
جناب میر کا پیرو ہوں باقی
مرے شعر و سخن میں کیا اثر ہے
گردھاری پرشاد باقی