لطف و ملت کسی کو کیا معلوم

لطف و ملت کسی کو کیا معلوم
لذت اس چیز کی ہے نا معلوم

کچھ نہ کچھ اس کو ہوگیا معلوم
ورنہ یہ بات اس کو کیا معلوم

میں نے جب درد دل کہا بولے
بس جی بس چپ رہو ہوا معلوم

میں نے پوچھا جو آپ کے ہے کمر
ہنس کے بولا وہ بت خدا معلوم

ہے ابھی ابتداء سو یہ غم ہے
اس محبت کی انتہا معلوم

اب نہ بولیں گے ہم بھلا صاحب
گر ہوا آپ کو برا معلوم

کس بھروسے پہ دل کو دو باقی
اس جفا کار سے وفا معلوم

گردھاری پرشاد باقی

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *