چشم بددور تماشا ہے وہ رخ
ختم ہے اوسپہ صفائی دیکھو
آئینہ سے بھی مصفا ہے وہ رخ
خط نہیں روے کتابی کے گرد
دیکھو جہان چمن سا ہے وہ رخ
خوب مشاطہ نے آرائش کی
حسن افشاں سے مطلا ہے وہ رخ
خیرہ ہوتی ہیں نگاہیں کیا کیا
مہرباں نور کا بکّا ہے وہ رخ
خواب میں بھی ہے بندھا اس کا خیال
روز و شب آنکھوں میں رہتا ہے وہ رخ
خلد میں دیکھی نہ حور اس نے کبھی
جس کو باقی نظر آتا ہے وہ رخ
گردھاری پرشاد باقی