مگر تیرے وفاداروں کی ہمت ہے جواں اب تک
یہ طوفان حوادث اور تلاطم باد و باراں کے
محبت کے سہارے کشتئ دل ہے رواں اب تک
کہاں چھوڑا ہے دل کو کاروان آہ و نالہ نے
کہ ہے آوارہ منزل یوسف بے کارواں اب تک
تلاش بحر میں قطرے نے کتنی ٹھوکریں کھائیں
سمجھ لیتا جو خود کو بن ہی جاتا بے کراں اب تک
دل بیمار کو ہم دم ہوائے سیر گل کیا ہو
کہ ہے نا معتدل آب و ہوائے گلستاں اب تک
ازل سے گوش دل میں گونجتے ہیں زمزمے تیرے
مگر اے دوست میں نے تجھ کو پایا بے نشاں اب تک
عیاں افسردگی گل سے ہے انجام گلشن کا
مگر خون دل بلبل ہے صرف آشیاں اب تک
واصف دہلوی