بریدہ حلق پہ خنجر بھی دیکھنا ہے ابھی
ابھی سے دشت بلا سے فراغتیں کیسی
بلند ہوتا ہوا سر بھی دیکھنا ہے ابھی
مصالحت کہاں ہوگی سپاہ شام کے ساتھ
زباں کی نوک پہ خنجر بھی دیکھنا ہے ابھی
نمیدہ چشم مسافت کی انتہا بھی نہیں
اداس نسل کو زد پر بھی دیکھنا ہے ابھی
تمہارے خواب مری انگلیوں سے باہر ہیں
تمہارے خواب کو چھوکر بھی دیکھنا ہے ابھی
واجد قریشی