اشارے ہوتے ہیں وہ رونق مے خانہ آتا ہے
تمہاری بزم بھی کیا بزم ہے آداب ہیں کیسے
وہی مقبول ہوتا ہے جو گستاخانہ آتا ہے
کہانی اپنی اپنی اہل محفل جب سناتے ہیں
مجھے بھی یاد اک بھولا ہوا افسانہ آتا ہے
دعا تیری ترے منتر بھلا مقبول کیا ہوں گے
بدی دل میں لیے سوئے عبادت خانہ آتا ہے
ہوائے تازہ ابر تر فزوں جوش نمو لیکن
نصیب دشمناں ہے کھیت میں جو دانہ آتا ہے
ہر اک ٹھوکر پہ ہے اے امن لغزش کا گماں مجھ کو
ہر اک پتھر نظر سنگ در مے خانہ آتا ہے
امن لکھنوی