سکندر
صلہ تیرا تری زنجیر یا شمشیر ہے میری
کہ تیری رہزنی سے تنگ ہے دریا کی پہنائی
قزاق
سکندر ! حیف ، تو اس کو جواں مردی سمجھتا ہے
گوارا اس طرح کرتے ہیں ہم چشموں کی رسوائی؟
ترا پیشہ ہے سفاکی ، مرا پیشہ ہے سفاکی
کہ ہم قزاق ہیں دونوں ، تو میدانی ، میں دریائی