اے ہمایوں! زندگی تیری سراپا سوز تھی
تیری چنگاری چراغ انجمن افروز تھی
گرچہ تھا تیرا تن خاکی نزار و دردمند
تھی ستارے کی طرح روشن تری طبع بلند
کس قدر بے باک دل اس ناتواں پیکر میں تھا
شعلہ گردوں نورد اک مشت خاکستر میں تھا
موت کی لیکن دل دانا کو کچھ پروا نہیں
شب کی خاموشی میں جز ہنگامہ فردا نہیں
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام زندگی
ہے یہ شام زندگی، صبح دوام زندگی