مرشد کی یہ تعلیم تھی اے مسلم شوریدہ سر
لازم ہے رہرو کے لیے دنیا میں سامان سفر
بدلی زمانے کی ہوا ، ایسا تغیر آگیا
تھے جو گراں قمیت کبھی، اب ہیں متاع کس مخر
وہ شعلہ روشن ترا ظلمت گریزاں جس سے تھی
گھٹ کر ہوا مثل شرر تارے سے بھی کم نور تر
شیدائی غائب نہ رہ، دیوانہء موجود ہو
غالب ہے اب اقوام پر معبود حاضر کا اثر
ممکن نہیں اس باغ میں کوشش ہو بار آور تری
فرسودہ ہے پھندا ترا، زیرک ہے مرغ تیز پر
اس دور میں تعلیم ہے امراض ملت کی دوا
ہے خون فاسد کے لیے تعلیم مثل نیشتر
رہبر کے ایما سے ہوا تعلیم کا سودا مجھے
واجب ہے صحرا گرد پر تعمیل فرمان خضر
لیکن نگاہ نکتہ بیں دیکھے زبوں بختی مری
”رفتم کہ خار از پا کشم ،محمل نہاں شد از نظر
یک لحظ غافل گشتم و صد سالہ را ہم دور شد”