گائے اک روز ہوئی اونٹ سے یوں گرم سخن
نہیں اک حال پہ دنیا میں کسی شے کو قرار
میں تو بد نام ہوئی توڑ کے رسی اپنی
سنتی ہوں آپ نے بھی توڑکے رکھ دی ہے مہار
ہند میں آپ تو از روئے سیاست ہیں اہم
ریل چلنے سے مگر دشت عرب میں بیکار
کل تلک آپ کو تھا گائے کی محفل سے حذر
تھی لٹکتے ہوئے ہونٹوں پہ صدائے زنہار
آج یہ کیا ہے کہ ہم پر ہے عنایت اتنی
نہ رہا آئنہء دل میں وہ دیرینہ غبار
جب یہ تقریر سنی اونٹ نے، شرما کے کہا
ہے ترے چاہنے والوں میں ہمارا بھی شمار
رشک صد غمزۂ اشتر ہے تری ایک کلیل
ہم تو ہیں ایسی کلیلوں کے پرانے بیمار
ترے ہنگاموں کی تاثیر یہ پھیلی بن میں
بے زبانوں میں بھی پیدا ہے مذاق گفتار
ایک ہی بن میں ہے مدت سے بسیرا اپنا
گرچہ کچھ پاس نہیں، چارا بھی کھاتے ہیں ادھار
گوسفند و شتر و گاو و پلنگ و خر لنگ
ایک ہی رنگ میں رنگیں ہوں تو ہے اپنا وقار
باغباں ہو سبق آموز جو یکرنگی کا
ہمزباں ہو کے رہیں کیوں نہ طیور گلزار
دے وہی جام ہمیں بھی کہ مناسب ہے یہی
تو بھی سرشار ہو، تیرے رفقا بھی سرشار
”دلق حافظ بچہ ارزد بہ میش رنگیں کن
وانگہش مست و خراب از رہ بازار بیار”