یہ کون غزل خواں ہے پرسوز و نشاط انگیز
اندیشہ دانا کو کرتا ہے جنوں آمیز
گو فقر بھی رکھتا ہے انداز ملوکانہ
نا پختہ ہے پرویزی بے سلطنت پرویز
اب حجرہ صوفی میں وہ فقر نہیں باقی
خون دل شیراں ہو جس فقر کی دستاویز
اے حلقہ درویشاں! وہ مرد خدا کیسا
ہو جس کے گریباں میں ہنگامہ رستا خیز
جو ذکر کی گرمی سے شعلے کی طرح روشن
جو فکر کی سرعت میں بجلی سے زیادہ تیز!
کرتی ہے ملوکیت آثار جنوں پیدا
اللہ کے نشتر ہیں تیمور ہو یا چنگیز
یوں داد سخن مجھ کو دیتے ہیں عراق و پارس
یہ کافر ہندی ہے بے تیغ و سناں خوں ریز