راز ہے ، راز ہے تقدیر جہان تگ و تاز
جوش کردار سے کھل جاتے ہیں تقدیر کے راز
جوش کردار سے شمشیر سکندر کا طلوع
کوہ الوند ہوا جس کی حرارت سے گداز
جوش کردار سے تیمور کا سیل ہمہ گیر
سیل کے سامنے کیا شے ہے نشیب اور فراز
صف جنگاہ میں مردان خدا کی تکبیر
جوش کردار سے بنتی ہے خدا کی آواز
ہے مگر فرصت کردار نفس یا دو نفس
عوض یک دو نفس قبر کی شب ہائے دراز!
”عاقبت منزل ما وادی خاموشان است
حالیا غلغلہ در گنبد افلاک انداز”!