کمال ترک نہیں آب و گل سے مہجوری
کمال ترک ہے تسخیر خاکی و نوری
میں ایسے فقر سے اے اہل حلقہ باز آیا
تمھارا فقر ہے بے دولتی و رنجوری
نہ فقر کے لیے موزوں ، نہ سلطنت کے لیے
وہ قوم جس نے گنوایا متاع تیموری
سنے نہ ساقی مہ وش تو اور بھی اچھا
عیار گرمی صحبت ہے حرف معذوری
حکیم و عارف و صوفی ، تمام مست ظہور
کسے خبر کہ تجلی ہے عین مستوری
وہ ملتفت ہوں تو کنج قفس بھی آزادی
نہ ہوں تو صحن چمن بھی مقام مجبوری
برا نہ مان ، ذرا آزما کے دیکھ اسے
فرنگ دل کی خرابی ، خرد کی معموری