جو ظرف جس کا ہے اس کا وہی ہے پیمانہ
اثر ہے سب پہ مئے عشق کا جداگانہ
کسی کو نشہ نہیں ہے کوئی ہے دیوانہ
تجلیوں میں ہو تقسیم خاک دل کیوں کر
ہزار شمع فروزاں اور ایک پروانہ
بیان زخم جگر پر وہ مسکراتے ہیں
ہنسی ہنسی میں بدلتے ہیں رنگ افسانہ
کسی کے زخم سے ملتا نہیں کسی کا زخم
تری نظر کے ہیں رخ کس قدر جداگانہ
ہر ایک ذرہ شرابی ہر ایک قطرہ شرابی
تمام عالم امکاں ہے ایک مے خانہ
جہاں نما تو ہے ساقی نما نہیں ناطق
بدل کے لے گیا جمشید میرا پیمانہ
ناطق لکھنوی