خزاں کی فکر خزاں میں نہ تھی بہار میں ہے
الجھ رہا ہوں کہ دل میرا کس شمار میں ہے
نہ اختیار سے باہر نہ اختیار میں ہے
چمن کہاں جو خیال خزاں چمن میں رہے
بہار ہی وہ نہیں ہوش جس بہار میں ہے
یہاں تو ذکر کو کافی نہیں دلی حرکات
ہزار دانہ کی تسبیح کس شمار میں ہے
چمن میں جا کے گریباں کو چاک کر ناطق
سنا ہے موسم گل تیرے انتظار میں ہے
ناطق لکھنوی