آئنہ بھی ہے مرا دل تری تصویر بھی ہے
زہر ہے سب کے لئے زہر محبت لیکن
اگر آ جائے موافق تو پھر اکسیر بھی ہے
مجرم عشق ہوں قاتل کا میں اے داور حشر
صاف تو یہ ہے کہ اس میں مری تقصیر بھی ہے
کس قدر صرفہ نگاہوں کا ہوا غیروں میں
کہئے اب آپ کے ترکش میں کوئی تیر بھی ہے
کیوں کیا کرتا ہے تو سمع خراشی ناطق
شعر کہتا ہے تو کچھ شعر میں تاثیر بھی ہے
ناطق لکھنوی