اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں بسا لے مجھ کو

اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں بسا لے مجھ کو
میں ہوں تیرا نصیب اپنا بنا لے مجھ کو
مجھ سے تو پوچھنے آیا ہے وفا کے معنی
یہ تیری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو
میں سمندر بھی ہوںموتی بھی ہوں غوطہ زن بھی
کوئی بھی نام میرا لے کے بلا لے مجھ کو
تو نے دیکھا نہیں آئینے سے آگے کچھ بھی
خدا پرستی میں کہیں تو نہ گنوا لے مجھ کو
کل کی بات اور ہے میں اب سا ر ہوں یا نہ رہوں
جتنا جی چاہے تیرا آج ستا لے مجھ کو
خود کو میں بانٹ نہ ڈالوں کہیں دامن دامن
کر دیا تو نے اگر میرے حوالے مجھ کو
میں جو کانٹا ہوں تو چل مجھ سے بچا کر دامن
میں ہوں اگر پھول تو جوڑے میں سجا لے مجھ کو
ترکِ الفت کی قسم بھی کوئی ہوتی ہے قسم
تو کبھی یاد تو کر بھولنے والے مجھ کو
بادہ پھر بادہ ہے میں زہر بھی پی جائوں قتیل
شرط یہ ہے کوئی بانہوں میں سنبھالے مجھ کو
قتیل شفائی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *