دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی
اک لحظہ بہے آنسو اک لحظہ ہنسی آئی
سیکھے ہیں نئے دل نے انداز شکیبائی
یہ رات کی خاموشی یہ عالمِ تنہائی
پھر درد اٹھا دل میں پھر یاد تری آئی
اس عالم ویراں میں کیا انجمن آرائی
دو روز کی محفل ہے اک عمر کی تنہائی
اس موسمِ گل ہی سے بہکے نہیں دیوانے
ساتھ ابرِ بہاراں کے وہ زلف بھی لہرائی
ہر دردِ محبت سے الجھا ہے غمِ ہستی
کیا کیا ہمیں یاد آیا جب یاد تری آئی
چرکے وہ دیے دل کو محرومئ قسمت نے
اب ہجر بھی تنہائی اور وصل بھی تنہائی
جلووں کے تمنائی جلووں کو ترستے ہیں
تسکین کو روئیں گے جلووں کے تمنائی
دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے
آغاز بھی رسوائی انجام بھی رسوائی
دنیا ہی فقط میری حالت پہ نہیں چونکی
کچھ تیری بھی آنکھوں میں ہلکی سی چمک آئی
اوروں کی محبت کے دہرائے ہیں افسانے
بات اپنی محبت کی ہونٹوں پہ نہیں آئی
افسونِ تمنا سے بیدار ہوئی آخر
کچھ حسن میں بے باک کچھ عشق میں زیبائی
وہ مست نگاہیں ہیں یا وجد میں رقصاں ہے
تسنیم کی لہروں میں فردوس کی رعنائی
آنکھوں نے سمیٹے ہیں نظروں میں ترے جلوے
پھر بھی دلِ مضطر نے تسکین نہیں پائی
سمٹی ہوئی آہوں میں جو آگ سلگتی تھی
بہتے ہوئے اشکوں نے وہ آگ بھی بھڑکائی
یہ بزمِ محبت ہے اس بزمِ محبت میں
دیوانے بھی شیدائی فرزانے بھی شیدائی
پھیلی ہیں فضاؤں میں اس طرح تری یادیں
جس سمت نظر اٹھی آواز تری آئی
اک ناز بھرے دل میں یہ عشق کا ہنگامہ
اک گوشہء خلوت میں یہ دشت پنہائی
ان مد بھر آنکھوں میں کیا سحر تبسم تھا
نظروں میں محبت کی دنیا ہی سمٹ آئی
صوفی غلام مصطفیٰ تبسم