یہ غم دیوار و در تجھے بھی دے
سخن گلاب کو کانٹوں میں تولنے والے
خدا سلیقہ عرضِ ہنر تجھے بھی دے
خراشیں روز چنے اور دل گرفتہ نہ ہو
یہ ظرف آئینہ، آئینہ گر تجھے بھی دے
پر کہ چکی ہے بہت مجھ کو یہ شب وعدہ
اب انتظار زدہ چشم تر تجھے بھی دے
ہے وقت سب سے بڑا منتقم یہ دھیان میں رہے
نہ سہ سکے گا یہی غم اگر تجھے بھی دے
سبھی شہادتیں تیرے خلاف ہیں محسن
یہ شورہ دل خود سر مگر تجھے بھی دے
محسن بھوپالی