ٹھوکریں کھا کے جو سنبھلتے ہیں

ٹھوکریں کھا کے جو سنبھلتے ہیں
نظم گیت وہی بدلتے ہیں
وہ ترسے ہیں روشنی کے لیے
جن کے خوں سے چراغ جلتے ہیں
بے سبب مسکرانا کیا معنی
بے سبب اشک بھی نکلتے ہیں
گھیر لیتی ہے گردش دوراں
گیسوئوں سے جو بچ نکلتے ہیں
دوستو فیضِ راہروی معلوم
آئو دوگام پھر بھی چلتے ہیں
ہم نقیب بہار ہیں محسن
راہبر راستے بدلتے ہیں
محسن بھوپالی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *