ہے کبھی درد کبھی آپ ہی درماں اپنا
بچ کے گرداب سے ڈوبے ہیں قریب ساحل
کس قدر خام تھا اندازۂ طوفاں اپنا
اس افق سے ہی تو لو دے گی طلوع فردا
آج بے مایہ سہی چاک گریباں اپنا
کس سے کہئے کہ بہاروں نے ہمیں زخم دئیے
کون مانے گا نہ تھا اپنا گلستاں اپنا
مہر آداب ہر اک گل پہ لگی ہے محسن
اک نشاں چھوڑ گئی فصل بہاراں اپنا
محسن بھوپالی