میں شرمسار ہوا تیری جستجو کرکے
سنا ہے شہر میں زخمی دلوں کا میلہ ہے
چلیں گے ہم بھی مگر پیرہن رفو کرکے
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کرکے
اجاڑ رت کو گلابی بنائے رکھتی ہے
ہماری آنکھ تری دید سے وضو کرکے
کوئی تو حبس ہوا سے یہ پوچھتا محسن
ملا ہے کیا اسے کلیوں کو بے نمو کرکے
محسن نقوی