قاتل کے ہاتھ میں تو حنا کی لکیر تھی
خوش ہوں کہ وقتِ قتل مرا رنگ سرخ تھا
میرے لبوں پہ حرفِ دعا کی لکیر تھی
میں کارواں کی راہ سمجھتا رہا جسے
صحرا کی ریت پر وہ ہوا کی لکیر تھی
سورج کو جس نے شب کے اندھیروں میں گم کیا
موجِ شفق نہ تھی تو قضا کی لکیر تھی
گزرا ہے شب کو دشت سے شاید وہ پردہ دار
ہر نقشِ پا کے ساتھ ردا کی لکیر تھی
کل اس کا خط ملا کہ صحیفہ وفا کا تھا
محسن ہر ایک سطر حیا کی لکیر تھی
محسن نقوی