ہر جگہ ہر وقت گویا اک کمی تیرے بغیر

ہر جگہ ہر وقت گویا اک کمی تیرے بغیر
کیا ہوئی جاتی ہے میری زندگی تیرے بغیر

موت کا غم ہے نہ جینے کی خوشی تیرے بغیر
زندگی ہے احتجاج زندگی تیرے بغیر

آه نکلی ہونٹ کانپے اشک آنکھوں میں بھر آئے
مسکرانے کی اگر کوشش بھی کی تیرے بغیر

اے ہمہ حسن و نزاکت اے مجسّم رنگ و بو
دل گرفتہ ہے چمن میں ہر کلی تیرے بغیر

دیکھتے ہی دیکھتے فطرت میں آیا انقلاب
اک نمایاں تیرگی ہے روشنی تیرے بغیر

اب وہاں میں ہوں جہاں یہ بھی سمجھ سکتا نہیں
کس طرح آتی ہے دنیا میں ہنسی تیرے بغیر

ہے امانت دار خاموشی مرے منہ میں زبان
ہائے رے خود اختیاری بے بسی تیرے بغیر

عشق سے تکمیل حسن اور حسن سے تكميل عشق
اک کمی میرے بغیر اور اک کمی تیرے بغیر

سر ہو سجدے میں تو دل میں کون ہو تیرے سوا
اے معاذاللہ تیری بندگی تیرے بغیر

ایک تارہ ٹوٹ کر تاریکیوں میں کھو گیا
رات ارم نے اس طرح ایک آہ کی تیرے بغیر

ارم لکھنوی

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *