ٹھہرے پانی میں نہاں ایک حسیں خواب بھی ہے

ٹھہرے پانی میں نہاں ایک حسیں خواب بھی ہے
آس کی جھیل میں عکس رخ مہتاب بھی ہے

دشت تنہائی کے تپتے ہوئے ویرانے میں
تیری یادوں کا ہے اک پیڑ جو شاداب بھی ہے

پار کرنا بڑا مشکل ہے کہ یہ بحر‌‌ ہوس
کہیں گہرا ہے بہت اور کہیں پایاب بھی ہے

اس کی تصویر میں آنکھوں میں بسا لوں کہ یہ شے
لاکھ ارزاں سہی میرے لیے نایاب بھی ہے

یوں تو لگتا ہے سمندر بڑا خاموش مگر
اس کے سینے میں نہاں کرب کا سیلاب بھی ہے

یہ تمناؤں کی سوکھی ہوئی ندی اختر
اپنی آنکھوں میں سجائے ہوئے اک خواب بھی ہے

احتشام اختر

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *