اُس گلی کچھ بھی کر نہیں اُٹھتے

اُس گلی کچھ بھی کر نہیں اُٹھتے
بیٹھ کر! عُمر بھر نہیں اُٹھتے
شہر سے جبر اٹھے گا کیسے بھلا
اٹھتے ہیں لوگ، پر نہیں اٹھتے
تُو میاں دل کو اندر آ کے دیکھ
یُوں کِرائے پہ گھر نہیں اُٹھتے
تجھ محلے کو یہ ہوا کیا ہے
واں سے اب نامور نہیں اٹھتے
شاید اپنا نہیں کوئی فردا
ہم میں آشفتہ سر نہیں اٹھتے
وقت کا رن بھی اک تماشا ہے
پاؤں اٹھتے ہیں، سر نہیں اٹھتے
حالت احوالی کیا بتائیں کہ ہم
اٹھنے لگتے ہیں، پر نہیں اٹھتے
سیل لے جائے گا بہا کے تمہیں
تم یہاں سے اگر نہیں اٹھتے
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *