ایسے نکلے کہ جیسے دم نکلے
جن سے دل کا معاملہ ہوتا
یاں بہت کم ہی ایسے غم نکلے
جو پھرے در بدر یہاں، وہ لوگ
اپنے باہر بہت ہی کم نکلے
آگ دل شہر میں لگی جس دن
سب سے آخر میں واں سے ہم نکلے
جون یہ جو وجود ہے یہ وجود
کیا بنے گی اگر عدم نکلے
کوچہء آرزو جو تھا اُس میں
زلفِ جاناں طرح کے خم نکلے
جون ایلیا