اگر چاہو تو آنا کچھ نہیں دشوار ، آ نکلو

اگر چاہو تو آنا کچھ نہیں دشوار ، آ نکلو
شروعِ شب کی محفل ہے مری سرکار ! آ نکلو
تمہیں معلوم ہے ہم تو نہ آنے کے ، نہ جانے کے
تڑپتا ہے تمہیں جی دیکھنے کو یار ، آ نکلو
بھروسہ ہی نہیں تم کو کسی پر اور یہاں سب ہیں
تمہارے ساتھ آنے کے لئے تیار ، آ نکلو
خرابے میں ، سرِ شامِ تمنا ، اے شہِ خوباں !
لگا خانہ خرابوں کا ہے اک دربار ، آ نکلو
جو آنکھیں ہو گئیں محروم راتوں میں بھی خوابوں سے
ہیں دن میں بھی وہ خوابوں ہی کی جانبدار ، آ نکلو
تمہاری نرگسِ بیمار ہی کے آسرے پر ہیں
تمہاری نرگسِ بیمار کے بیمار ، آ نکلو
ہماری کیا خریداری کہ یکسر تن فگاری ہیں
زلیخاوار کیا آؤ گے ، شیریں وار ، آ نکلو
تمہیں ہم سے مِلے گا کیا مگر ہم پھر تمہارے ہیں
ہماری قدر جانو اور یونہی بیکار ، آ نکلو
اگر پوشیدہ رہنا مخبروں سے ہے تو پھر یارو !
ہماری مصلحت مانو ، سرِ بازار ، آ نکلو
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *