اے نفس آشفتگاں! شہر بگولوں کا ہے

اے نفس آشفتگاں! شہر بگولوں کا ہے
رہیو بہم خود میں یہاں، شہر بگولوں کا ہے
دھول ہے ساری زمیں، دھند ہے سب آسماں
شکل کی صورت کہاں؟ شہر بگولوں کا ہے
گرد کی شکلیں سی دو ہونے کو ہیں ہمکنار
بیچ میں ہیں آندھیاں، شہر بگولوں کا ہے
گرد ہیں تعمیر کی ساری فلک بوسیاں
گرد میں ہوُ کا مکاں، شہر بگولوں کا ہے
ہیں اسی دم رُوبرُو، پھر نہ کوئی میں نہ توُ
اُس پہ وعدے بھی جاں ؟ شہر بگولوں کا ہے
اب سے ہے جو اب تلک، سود میں ہے وہ پلک
کس کا زیاں، کیا زیاں، شہر بگولوں کا ہے
ایک نفس ہی سہی، اس کی ہوس ہی سہی
رشتہ ہو اک درمیاں، شہر بگولوں کا ہے
دھند ہے بکھراو ہے، دھول ہے اندھیاو ہے
خود سے لگا چل میاں، شہر بگولوں کا ہے
ہائیں یہ آشفتگی، پائے نہ جاو گے پھر
شہر یہ آشفتگاں، شہر بگولوں کا ہے
وہم گماں کا گماں، عیش ِ یقیں ہے یہاں
یہ بھی گماں ہے گماں، شہر بگولوں کا ہے
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *