کیا قیامت ہے وہ پیالۂ ناف
اب کہاں ہوش ہم کو حشر تلک
کہ سلامت ہے وہ پیالۂ ناف
جون، بابا الف کا ہے ارشاد
کارِوحدت ہے وہ پیالۂ ناف
شب خرابات میں رہا یہ سُخن
دل کی رخصت ہے وہ پیالۂ ناف
زندگی آرزو کا قامت ہے
نافِ قامت ہے وہ پیالۂ ناف
ہے اسی کی گدائی پر گزران
دل کی دولت ہے وہ پیالۂ ناف
اس کی جُنبش ہے تِشنگی انگیز
حشرِحالت ہے وہ پیالۂ ناف
زندگی ہے شرابیوں کی حرام
قدرِحُرمت ہے وہ پیالۂ ناف
کوئی اس کی رَسَد نہیں جُز رنگ
خونِ حسرت ہے وہ پیالۂ ناف
یار پستاں تو گوشت پارے ہیں
رمز نزہت ہے وہ پیالۂ ناف
سارے رندانِ شامِ حیرت کا
مالِ حیرت ہے وہ پیالۂ ناف
بس وہی ہے،وہی ہے اور وہی
وحدیت ہے وہ پیالۂ ناف
بس جُھکالو سروں کو سرمستو !
نازِغیرت ہے وہ پیالۂ ناف
جون ایلیا