ایک ہی بار بار ہے ، اماں ہاں

ایک ہی بار بار ہے ، اماں ہاں
اک عبث یہ شمار ہے ، اماں ہاں
ذرّہ ذرّہ ہے خود گریزانی
نظم ایک انتشار ہے ، اماں ہاں
ہو وہ یزداں کہ آدم و ابلیس
جو بھے خود شکار ہے ، اماں ہاں
وہ جو ہے جو *کہیں* نہیں اس کا
سب کے سینوں پہ بار ہے ، اماں ہاں
اپنی بے روزگاریِ جاوید
اک عجب روزگار ہے ، اماں ہاں
شب خرابات میں تھا حشر بپا
کہ سخن ہرزہ کار ہے ، اماں ہاں
کیا کہوں فاصلے کے بارے میں
رہگزر ، رہگزر ہے ، اماں ہاں
بھُولے بھُولے سے ہیں وہ عارض و لب
یاد اب یادگار ہے ، اماں ہاں
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *