لے کے آیا ہوں تمہارے سامنے سینے کے داغ
دیر سے لو دے رہے تھے بادہ فن کے چراغ
ایک رہرو جا رہا تھا راستے میں بے خیال
دل کو مستقبل کی اُمیدوں سے بہلاتا ہوا
تم اچانک آئیں اور خاص اک چوراہے کے پاس
اپنی پائل کے ترنم سے اُسے چونکا دیا
اور اُس سے اُسکی میزل کا تصور چھین کر
ایک بے مقصد سفر کے عہد و پیماں کر لیے
اب تمہاری رہبری تھی اور تخّیل کا فریب
راستے بدلے گئے اور کارواں بڑھنے لگے
ذہن پر چھاتا گیا رنگین خوابوں کا فسوں
زندگی کرنے لگی خوابوں کے گلزاروں میں رقص
رات کی تنہائیوں میں شہرِ انجم کے سفر
کہکشاں تا کہکشاں نادیدہ سیاروں میں رقص
مجھ کو بخشے تھے انھیں نظروں نے میخانوں کے خواب
عارض و گیسو سے وابستہ شبستانوں کے خواب
ساحلِ آغوشِ سر مستی میں طوفانوں کے خواب
کیا مگر خوابوں کا حاصل وہ بھی دیوانوں کے خواب
اور پھر وہ دور بھی آیا کہ تم اُکتا گئیں
اپنی حد سے بڑھ گئی تھیں اپنی حد میں آگئیں
میں فریبِ آرزو کھاتا رہا ‘ جیتا رہا
زہرِ غم پیتا رہا ‘ پیتا رہا ‘ پیتا رہا
چاک کرتی ہی رہیں تم جیب و دامانِ وفا
اور میں سہتا رہا ‘ سہتا رہا ‘ سہتا رہا
جانے کیوں تم مستقل دامن کشاں رہنے لگیں
بے سبب نامہرباں ‘ نامہرباں رہنے لگیں
بُھول کر عہدِ نظر جانے کہاں پہنچا خیال
چھوڑ کر شہرِ وفا جانے کہاں رہنے لگیں
آہ! وہ نازِ محبت کا یقین و اعتبار
میں نے تم کو دم بدم آواز پر آواز دی
پھر حدودِ حسرت و اُمید تک ڈھونڈا تمہیں
روح کی وادی میں دل کے ساز پر آواز دی
لوگ کہتے ہیں یقیناََ ٹھیک ہی کہتے ہیں لوگ
میں فقط وہموں کی دُنیا میں سفر کرتا رہا
میں نے چاہی بجلیوں سے خرمن اندوزی کی داد
پتھروں سے خواہشِ لطفِ نظر کرتا رہا
کیا تمہارے شہر میں لے کر دعاؤں کے حصار
نوجوانی کو مِٹانے کے لیے آیا تھا میں
کیا شعورِ زندگی کی داد پانے کی بجائے
میکدوں میں لڑکھڑانے کے لیے آیا تھا میں
اب شعورِ زندگی کو آزمانے دو مجھے
کچھ حجاباتِ مزاجِ دل اُٹھانے دو مجھے
ایک ہی رُخ تم نے دیکھا ہے ابھی تصویر کا
آج اُسکا دوسرا رُخ بھی دِکھانے دو مجھے
تم کو اپنایا تھا ‘ تم کو چھوڑ بھی سکتا ہوں میں
بُت بناتا ہی نہیں ہوں توڑ بھی سکتا ہوں میں
جون ایلیا