بنام فارہہ

بنام فارہہ
ساری باتیں بھول جانا فارہہ
تھا وہ سب کچھ اک فسانہ فارہہ
ہاں محبت ایک دھوکا ہی تو تھی
اب کبھی دھوکا نہ کھانا فارہہ
چھیڑ دے گر کوئی میرا تذکرہ
سن کے طنزاًمسکرانا فارہہ
میری جو نظمیں تمہارے نام ہیں
اب انہیں مت گنگنانا فارہہ
تھا فقط روحوں کے نالوں کی شکست
وہ ترنم وہ ترانہ فارہہ
بحث کیا کرنا بھلا حالات سے
ہارنا ہے ہار جانا فارہہ
ساز و برگ عیش کو میری طرح
تم نظر سے مت گرانا فارہہ
ہے شعور غم کی اک قیمت مگر
تم یہ قیمت مت چکانا فارہہ
زندگی سے فطرتاً کچھ بد مزاج
زندگی کے ناز اٹھانا فارہہ
پیش کش میں پھول کر لینا قبول
اب ستارے مت منگانا فارہہ
چند ویرانے تصور میں رہیں
جب نئی دنیا بسانا فارہہ
جانبِ عشرِ تگہِ شہرِ بہار
ہو سکے تو مل کے جانا فارہہ
سوچتا ہوں کس قدر تاریک ہے
اب میرا باقی زمانہ فارہہ
سن رہا ہوں منزلِ غربت سے دور
بج رہا ہے شادیانہ فارہہ
موجزن پاتا ہوں میں اک سیلِ رنگ
از قفس تا آشیانہ فارہہ
ہو مبارک رسمِ تقریبِ شباب
برمرادِ خسروانہ فارہہ
سج کے وہ کیسا لگا ہو گا جو تھا
ایک خواب ِشاعرانہ فارہہ
سوچتا ہوں میں کہ مجھ کو چاہئیے
یہ خوشی دل سے منانا فارہہ
کیا ہوا گر زندگی کی راہ میں
ہم نہیں شانہ بشانہ فارہہ
وقت شاید آپ اپنا جبر ہے
اس پہ کیا تہمت لگانا فارہہ
زندگی اک نقش بے نقاش ہے
اس پہ کیا انگلی اٹھانا فارہہ
کاش اک قانون ہوتا جو نہیں
زخم اپنے کیا دکھانا فارہہ
کاش کچھ اقدار ہوتیں جو نہیں
پھر بھلا کیا دل جلانا فارہہ
صرف اک جلتی ہوئی ظلمت ہے نور
تاب و تابش پر نہ جانا فارہہ
یہ جو سب کچھ ہے یہ شاید کچھ نہیں
روگ جی کو کیا لگانا فارہہ
سیل ہے بس بیکراں لمحوں کا سیل
غرق سیل بیکرانہ فارہہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *