بے انتہائی شیوہ ہمارا سدا سے ہے

بے انتہائی شیوہ ہمارا سدا سے ہے
اک دم سے بھُولنا اسے پھر ابتدا سے ہے
یہ شام جانے کتنے ہی رشتوں کی شام ہو
اک حُزن دل میں نکہتِ موجِ صبا سے ہے
دستِ شجر کی تحفہ رسانی ہے تا بہ دل
اس دم ہے جو بھی دل میں مرے وہ ہوا سے ہے
جیسے کوئی چلا بھی گیا ہو اور آئے بھی
احساس مجھ کو کچھ یہی ہوتا فضا سے ہے
دل کی سہولتیں ہیں عجب ، مشکلیں عجب
ناآشنائی سی عجب اک آشنا سے ہے
اس میں کوئی گِلہ ہی روا ہے نہ گفتگو
جو بھی یہاں کسی کا سخن ہے وہ جا سے ہے
آئے وہ کِس ہنر سے لبوں پر کہ مجھ میں جون
اک خامشی ہے جو مرے شورِ نوا سے ہے
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *