تھا جب تک معیاد کے اندر، عہد وصال شام فراق

تھا جب تک معیاد کے اندر، عہد وصال شام فراق
کتنی خیال انگیز آتی تھی، باد ملال شام فراق
اک بے شکوہ محرومی ہے اور تمہارے شکر گزار
شاید شام وصل تھی اپنی، شام زوال شام فراق
ایسی بے عہد و پیمائی اور ویرانی رشتوں کی
کوئی بھی صبح ذات نہیں ہے، صبح خیال شام فراق
دل کے لمحوں یاد دلاؤ، مجھ کو کوئی شام وصال
جس کے نام لکھوں اور بھیجوں، اپنا حال شام فراق
کیا کیا مجلس برپا کی ہے، میری سخن احوالی نے
شاید مجھ کو یاد رہے ہوں، کچھ اقوال شام فراق
میں تم سب کی ایک نہ مانوں، تم سب مجھ کو سمجھاؤ
آؤ پھر آغاز کریں ہم، بحث وجدال شام فراق
ہر شکوہ اک نغمہِ جاں تھا، مستیِ جاں لب پرور تھی
یاد جمال یار تھی جب تک، یاد جمال شام فراق
رشتہِ درد فراق کا بھی کیا، اس نے دم سے توڑ لیا
شام فراق یار آئی ہے، بے احوال شام فراق
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *