تُو ہے جن کی جان اُنھیں کی، تجھ کو نہیں پہچان سجن

تُو ہے جن کی جان اُنھیں کی، تجھ کو نہیں پہچان سجن
تجھ پر میری جان نچھاور، اے میرے انجان سجن
دُھند ہے دیکھے سے اَن دیکھے تک، دیکھے اَن دیکھے کی
اور اس دُھند میں ہے اب میرے، دھیان میں بس اک دھیان سجن
میری ذات اب اک زنداں ہے، دل ہے اس کا زندانی
تُو ہے میری ذات کے اس، زندانی کا ارمان سجن
یہ جو ہم دو چار بچے ہیں، نام ترا جپنے والے
ہو سکتا ہے کچھ کر گزریں، بات ہماری مان سجن
ایسے فسادی بھی ہوتے ہیں، سوچ کے بس حیران ہوں میں
بیچ میں پڑنے والے نکلے، کیسے بےایمان سجن
چاہ کا ناتا کیسے نِبھے گا ، کیسے بات بنے گی جان
میں نےکیاکُچھ ٹھان رکھا ہے، تُو بھی تو کچھ ٹھان سجن
ویرانوں میں کوئی نہیں جو آ نکلے اور دھوم مچے
ویرانوں کی ویرانی سے، شہر ہوئے ویران سجن
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *