چمن میں تیرے نہ ہونے پہ بھی بہار آئی
مرا غرورِ نظر ناروا نہیں لیکن
ہے ماروائے نظر بھی جہاں کی رعنائی
جُدا سمجھ نہ خدا کو جہانِ فطرت سے
خدا ہے خود اِسی فطرت کی ایک خودرائی
نیازِ غیر سے کیا کام خود نمائی کو
ہے خود ہی انجمن آرا یہ انجمن آرائی
ہے فرق دیر و حرم میں فقط یہی کہ حیات
یہاں ہے جانِ تمّنا وہاں تمنائی
میں کیا بتاؤں کسی بے وفا کی مجبوری
کبھی خیال جو آیا تو آنکھ بھر آئی
ستم نگاہ کا اپنی ہمیں نہ بھولے گا
یہ کم نہیں کہ تیرے دل میں آگ بھڑکائی