تو سحر و معجزہ بھی دکھا دے مقال کا

تو سحر و معجزہ بھی دکھا دے مقال کا
ممکن نہیں جواب، کسی بھی سوال کا
آئے یقیں اسی کی اذیت دہی کے ساتھ
ہم کو گمان تک نہ ہو جس احتمال کا
تو مجھ کو مجھ سے روک رہا ہے، کمال ہے
منظر تو رک کے دیکھ لوں اپنے زوال کا
اے ہم فضا! ودیعتِ فطرت پہ ناز کیوں
پرواز کیا ہنر ہے ترے شاہبال کا
پرسش کا وار کس کو، کہ ہے دوبدو کی یاں
ہو جائے حال کیا، مرے پرسان حال کا
ہم مر بھی جائیں، نشونما سے نہ جائیں گے
روئیدگی پہ قرض ہے یاں بال بال کا
پرسش تو میری سال بہ سال اب کرے بھی کیا
امسال بھی ہے حال وہی پار سال کا
جو تھے وہی کوائف زنداں ہیں اور ہاں
ان روزوں نرخ تیز ہے، روزن کے مال کا
اہل کمال کا ہے اک انبوہ اور میں
شاعر کمال کا ہوں نہ عاشق کمال کا
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *