جو رنج بھی مری جاں کو پہونچا

جو رنج بھی مری جاں کو پہونچا
وہ میرے تئیں جہاں کو پہونچا
آواز سی کان میں اک آئی
نقصان کسی زیاں کو پہونچا
ہا سینہ بہ سینہ لب بہ لب جاں
پیغام گماں، گماں کو پہونچا
پرچھائیں نے دھوپ سے لیا سود
ہر نفع یہاں، زیاں کو پہونچا
لو اس کا حساب تو جبیں سے
جو زخم کہ آستاں کو پہونچا
کیا قہر تھی جنبش پرکاہ
صدمہ تھا جو کہکشاں کو پہونچا
تھا میرے بھی دکھ سے کچھ زیادہ
وہ دکھ جو حساب داں کو پہونچا
خونیں نفسی کے ہاتھ جاناں
خلعت ترے نغمہ خواں کو پہونچا
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *