بہتر یہی ہے آپ مجھے بھول جائیے
ہر آن اک جدائی ہے خود اپنے آپ سے
ہر آن کا ہے زخم جو ہر آن کھائیے
تھی مشورت کہ ہم کو بسانا ہے گھر نیا
دل نے کہا کہ میرے در و بام ڈھائیے
تھوکا ہے میں نے خون ہمیشہ مذاق میں
میرا مذاق آپ ہمیشہ اڑائیے
ہر گز مرے حضور کبھی آئیے نہ آپ
اور آئیے اگر تو خدا بن کے آئیے
اب کوئی بھی نہیں ہے کسی دل محلے میں
کس کس گلی میں جائیے اور غل مچائیے
اک طور وہ صدی تھا جو بے طور ہو گیا
اب جنتری بجائیے، تاریخ گائیے
اک لال قلعہ تھا جو میاں زرد پڑ گیا
اب رنگ ریز کون سے کس جا سے لائیے
شاعر ہیں آپ یعنی کہ سستے لطیفہ گو
رشتوں کو دل سے روئیے، سب کو ہنسائیے
جو حالتوں کا دور تھا وہ تو گذر گیا
دل کو جلا چکے ہیں سو اب گھر جلائیے
اب کیا فریب دیجیے اور کس کو دیجیے
اب کیا فریب کھائیے اور کس سے کھائیے
ہے یاد پر مدار مرے کاروبار کا
ہے عرض آپ مجھ کو بہت یاد آئیے
بس فائلوں کا بوجھ اٹھایا کریں جناب
مصرع یہ جون کا ہے اسے مت اٹھائیے
جون ایلیا