جونؔ گزشتِ وقت کی حالت پر سلام

جونؔ گزشتِ وقت کی حالت پر سلام
اُس کے فراق کو دعا اُس کے وِصال پر سلام
تیرا ستم بھی تھا کرم، تیرا کرم بھی تھا ستم
بندگی تیری تیغ کو، اور تیری ڈھال پر سلام
سود و زَیاں کے فرق کا اب نہیں ہم سے واسطہ
صبح کو عرض کورنش، شام ملال پر سلام
اب تو نہیں ہے لذتِ ممکنِ شوق بھی نصیب
روز و شبِ زمانۂ شوقِ محال پر سلام
ہجرِ سوال کے ہیں دنِ، ہجرِ جواب کے ہیں دن
اُس کے جواب پر سلام، اپنے سوال پر سلام
جانے وہ رنگِ مستیٔ خواب و خیال کیا ہوئی
عشرتِ خواب کی ثنا، عیشِ خیال پر سلام
اپنا کمال تھا عجب اپنا زوال تھا عجب
اپنے کمال پر دَرُود، اپنے زوال پر سلام
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *